Tabassum

Add To collaction

بے پناہ محبت

مرزا اس کی بالوں کی لٹوں سے اپنی انگلیوں کو الجھا رہا تھا..

"کیوں خراب کر رہے ہو بال میرے.؟"صاحبہ نے روٹھے ہوئے انداز میں کہا۔۔

"خراب کہاں میں تو سُلجھا رہا ہوں." مرزا نے اُسے محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

اُس کی کمر پہ ٹکا کہ مُکا پڑا یہ تُم سُلجھا رہے ہو.؟" اُس نے اپنے بالوں کو دیکھتے ہوۓ کہا۔

"ہاں نا جیسی تُم سُلجھی ہوئی ہو." مرزا کے منہ پھولا کر روٹھے ہوئے کہا۔

وہ مُسکرا دی.

"تُمہیں پتا ہے مُجھے سب سے پیاری خُوشبو کونسی لگتی ہے.؟"

کونسی وہ آنکھیں چھوٹی کرتی ہوئے بولی جیسے اُس کو جواب کا پہلے سے پتا ہو.

"تُمہارے بالوں کی."

وہ اُس کے بالوں کی خُوشبو محسوس کرتے ہوئے بولا.

"ہاہاہاہا اور کبھی خود پہ بھی غور کر لیا کرو" وہ اُس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی ہوئے بولی ایسے جیسے کوئی پلاسٹک کا برش ہوتا ہے.

"ہاہاہاہا تُمہارے جو ریشمی دھاگے جیسے ہیں."

وہ ہلکا ہلکا گُنگنانے لگا.

"یہ موہا موہا کے دھاگے تیری اُنگلیوں سے جا اُلجھے."

کیا بے تُکی آواز ہے بس کرو وہ بولی.

"تو تُمہیں میری آواز بے تُکی لگتی ہے.؟"

"ہاں ناں." صاحبہ نے آنکھیں پٹپتاتے ہوئے چہرے پر دُنیا جہان کی معصومیت لا کر کہا۔

"اِس لیے دن میں مُجھے ساٹھ دفعہ کال کر کے میری آواز سُنتی ہو."

صاحبہ نے شرما کر گردن جھکائی۔۔۔

" اُف!!! میری صاحبہ" مرزا کے دل کے مقام پر ہاتھ رکھتے ہوئے محبت سے کہا۔

وہ پِھر سے ہنسی تُم کِتنے پاگل  ہو ناں.

ہاں ناں اِس پاگل  پہ تُم جان دیتی ہو ناں.

"صحیح کہا تُم نے جان دیتی ہوں تُم پر بہت محبت ہے تُم سے۔۔۔"

محبت سے دیکھتے ہوئے صاحبہ مرزا کے سینے سے لگ گئی۔

اچھا !!!! کتنی ؟؟؟ مرزا کے اُس کے بالوں پر اپنے لب رکھ دئیے۔

" بے پناہ۔۔۔ محبت ہے اتنی ہے کہ

جہاں بات ہو گی پاکیزہ جذبوں کی وہاں____!!

اُس نے اُس کے کان کے پاس جا کر سرگوشی کی

محبت کو پردہ اور عشق کو سجدہ لکھوں گی__!!🥀

"اب اتنی محبت!! لیکن شادی سے پہلے سے تو مُجھے ستایا تھا یاد ہے تمہیں, کتنی منّت کی تھی تمہیں تُم سے پانے کے لیے" مرزا سے اُسے پُرانی بات یاد دلائی۔۔۔

"ہاں !!! کیوں کہ مَیں تُم سے جائز رشتے میں رہ کر تمہاری بے پناہ محبت کا دم بھرنا چاہتی تھی اُسے محسوس کرنا چاہتی تھی ، نہ کہ نا جائز رشتے میں رہ کر تُمھیں کھونا چاہتی تھی۔۔۔ مرزا ! اگر تُم مُجھ سے دور ہوتے نہ تو تمہاری یہ صاحبہ مر جاتی۔۔" صاحبہ نے نم آنکھوں سے کہہ کر اپنا سر مرزا کے سینے پر رکھ دیا۔۔۔

مرزا نے محبت پاش نظروں سے اپنی صاحبہ دیکھا۔۔۔

مرزا اور صاحبہ کلاس فیلو تھے۔۔۔ صاحبہ کی سادگی دیکھ کر مرزا اُس سے بے پناہ محبت کرنے لگا، اور دِل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اُس سے اظہارِ محبت کر بیٹھا، مایوسی تو اُسے صاحبہ کے انکار سے ہوئی ، صاحبہ کا کہنا تھا کہ اُس کی محبت غلط نہیں ہے لیکن وہ اگر اُس سے سچ میں بے پناہ محبت کرتا ہے تو ، رشتا اُس کے گھر بھیجے کیوں کہ محبت کی اصل اور حقیقی منزل تو نکاح ہے۔۔۔ لیکن مرزا بیروزگار ہونے کی وجہ سے رشتا نہیں لے جا سکا ، اُس کا کہنا تھا کہ کون سا باپ اپنی بیٹی کسی بیروزگار کو دیگا۔۔ صاحبہ کی کچھ پل کی جدائی سے مرزا کی حالت خراب ہو گئی تھی۔ صاحبہ کو جب مرزا کی حالات کا علم ہوا تو اُس نے اُسے اچھی اپنے بھائی کے ساتھ بزنس میں حصہ داری کرنے کا مشورہ دیا۔  ایسا نہیں تھا کہ مرزا کسی غریب خاندان سے تھا۔ مرزا کے والد کا خود کا کاروبار تھا لیکن مرزا خود کے دم پر کُچھ کرنا چاہتا تھا۔۔۔

"اچھا کِتنے مزے کی ہوا چل رہی ہے تُمہارے کندھے پہ سر رکھ لوں.

"ہاں رکھ لو"

"زندگی کتنی حسین ہے نہ ایک دوسرے کے سنگ" اُس نے سرگوشی کی اُس کے کان میں.

وہ بولا "بہت"..!! ♥️👑


   25
10 Comments

Khan

21-Oct-2022 10:40 PM

🙏🌺👌

Reply

shweta soni

21-Oct-2022 01:28 PM

👌👌👌

Reply

Mamta choudhary

18-Oct-2022 07:02 PM

ماشاءاللہ❤️ کیا بات ہے بہت لاجواب👌❤️

Reply